طلسمی طوطا اور چور

قسط نمبر ۲


سویٹ بچوں جب اس مرتبہ گرمی کی چھٹیوں میں یاسر خان اپنی بڑی بہن سے ملنے راولپنڈی آیا اسنے اپنی بھانجی کومیاں مٹھو کے بارے میں بتایا کہ وہ کس طرح میاں مٹھو کو جنگل سے اٹھا لایا اور اب وہ اس سے باتیں بھی کرتا ہے۔یہ سن کریاسر خان کی دس سالہ بھانجی نے ضد پکڑ لی کہ میں نے وہ طوطا لینا ہے۔چند ہفتوں کے بعد یاسر خان نے وہ طوطا اسے تحفے میں دے دیا۔جب یاسر خان اسے چھوڑ گیا میاں مٹھو بہت رویا اور چلایا وہ اس سے دور نہیں رہنا چاہتا تھا-سویٹ بچوں جب اس مرتبہ گرمی کی چھٹیوں میں یاسر خان اپنی بڑی بہن سے ملنے راولپنڈی آیا اسنے اپنی بھانجی کومیاں مٹھو کے بارے میں بتایا کہ وہ کس طرح میاں مٹھو کو جنگل سے اٹھا لایا اور اب وہ اس سے باتیں بھی کرتا ہے۔یہ سن کریاسر خان کی دس سالہ بھانجی شانزے نے ضد پکڑ لی کہ میں نے وہ طوطا لینا ہے۔چند ہفتوں کے بعد یاسر خان نے وہ طوطا اسے تحفے میں دے دیا۔جب یاسر خان اسے چھوڑ گیا میاں مٹھو بہت رویا اور چلایا وہ اس سے دور نہیں رہنا چاہتا تھا لیکن یاسر کی بھانجی نے اسے اتنی پیاری نظمیں سنائیں کہ وہ خوش ہو گیا اور چند دنوں میں اس نے بھی یہ نظمیں یاد کر لیں۔وہ اکثر شام کو سہیلیوں کے ساتھ اپنے صحن میں آنکھ مچولی اور چور سپاہی کھیلا کرتی تھی۔جسے میاں مٹھو بہت خوش ہو کے دیکھا کرتا تھا۔اور بچوں کے ساتھ چور چور بھی کہتا تھا۔
ایک روز شانزے اپنی امی کے ساتھ کسی پارٹی میں گئی ہوئی تھی۔گھر میں کوئی نہیں تھا۔اچانک دو چور گھر کی پچھلی دیوار سے چھلانگ لگا کر گھس آئے۔انہوں نے سامان باندھا۔پہلے تو طوطاسہم کر انکی حرکتیں دیکھتا رہا پھر جب چور سامان باندھ چکے طوطے نے حسب عادت سامان بجنے کی آواز سن کر کہا کون ہے؟ جب چور ڈر کے بھاگنے لگے طوطا بولا چور چور اس نے سمجھا کہ یہ بھی اسکی ننھی مالکن دعا کی طرح چور چور کھیل رہے ہیں یہ سننا تھا کہ چور سرپٹ دیوار کی طرف بھاگے ایک چور کی ٹانگ کو چوٹ لگ گئی اور اس سے درد کے مارے چلنا دشوار ہو گیا۔
بس تو پیارے بچوں پھر کیا ہوا۔۔۔۔۔جب پڑوسیوں نے اسے دیکھا تو پکڑ کر راولپنڈی تھانہ چوکی میں پولیس کے حوالے کر دیا۔اس چور کا نام بالا گجر تھا وہ شروع سے ہی مویشی چوری کیاکرتا تھا لیکن اب اس نے نقب زنی بھی شروع کر دی تھی کیونکہ مویشیوں کو لے کر بھاگنا اب اسے مشکل لگتا تھا۔وہ جب کسی گھر میں چوری کا ارادہ کرتا اس گھر کے مکینوں کے آنے جانے کے اوقات اپنے ایک جاسوس مخبر کے ذریعے نوٹ کرتا رہتا تھا۔
یہ جاسوس اس نکڑ والے گھر کے پاس گلی میں ریڑھی پر پکوڑے بیچا کرتا تھا۔جب اسے اطلاع ملتی کہ گھر والے گھر پہ نہیں ہیں وہ نہائیت اطمینان سے چوری کر لیتا اسطرح اس نے کئی چوریا کی تھیں۔لیکن اب کی بار پکڑا گیا۔اسکا دوسرا ساتھی بھی پکڑا گیا۔دونوں ملزم عدالت میں پیش ہوئے اور انہیں گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہونے کی سزاء دو سال سنائی گئی۔چور نے عدالت سے پوچھا کہ آپ یہ بتا دیں کہ وہ کون تھا جس نے چور چور کا شور مچایا تھ امگر وہ غیبی انسان نظر نہ آیا۔اس پر سپاہی نے اسے بتایا کہ وہ کوئی انسان نہیں تھا۔۔۔یہ سن کر تو چور بہت ڈر گیا کہنے لگا مجھے تو پہلے ہی شک تھا کہ یہ گھر آسیب زدہ تھا میں نے اپنے ساتھی کو منع بھی کیا تھ الیکن اسی نے ضد کی تھی کہ نہیں میں نے جاسوسی کر لی ہے تین منزلہ گھر میں صرف تین لوگ رہتے ہیں گھر کا مالک شہر کا امیر تاجر ہے اس لیے خوب مال ہاتھ لگے گا لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ اس گھر میں گھر والوں کے ساتھ جن بھی رہتے ہیں۔ اس نے روتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا ارے منجوکم بخت تو دیکھ لینا یہ جن اب ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں