گزشتہ برس افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پرانی حکومت کے اراکین کو افغانستان سے جلا وطن کر دیا گیا ھا۔ان جلا وطن افراد میں فرزانہ الہام کوچائی، جمیلہ افغانی، اور نرگس نیہان شامل تھے۔ ان تینوں کو ناروے میں سیاسی پناہ دی گئی اور انہیں ناروے کے مختلف دور دراز مقامات کے کیمپوں میں رکھا گیا۔
ایک افغان رہنماء خاتون اور رجمان کے طور پر نیہان کو اکثر کانفرنسوں میں مدعو کیا جاتا رہا ہے۔لیکن گزشتہ کئی کانفرنسوں میں وہ شامل نہ ہو سکیں اسکی وجہ یہ تھی کہ انکی رہائش ان علاقوں سے بہت دور تھی جہاں کانفرنسیں منعقد ہو رہی تھیں اور ان کے لیے انکے جہاز کا کرایہ دینا ممکن نہ تھا۔
کوچائی کو بجائے انسانی حقوق کی تنظیموں میں کام کو جاری رکھنے اور آسان بنانے کے ان کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دی گئیں۔انہوں نے ایک بیان میں بتایا کہ زندگی اس وقت اور بھی مشکل ہو جاتی ہے جب ایک انسان نے تمام عمر بطور لیڈر گزاری ہو اور پھر اسے زندگی گزارنے کے لیے پریکٹس کے نام پر دوکانوں کیفے یا فارم میں پریکٹس کے لیے بھیجا جائے۔یہ بات اس وقت اور بھی مشکل ہو جاتی ہے جب ایک شخص پندرہ سالہ انتظامی عمور کا اعلیٰ تجربہ رکھتا ہو۔
کینیڈا منتقل ہونے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ انہیں یہ تجربہ ہوا ہے کہ ناروے اپنے جیسے انسانی حقوق کی حمائیت کرنے والوں کی مدد نہیں کرتا اس لیے انہوں نے ناروے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اب وہ کینیڈا میں منتقل ہوں گی۔وہاں وہ اپنی انسانی حقوق کے تحفظ کی سرگرمیاں جاری رکھیں گی اور اپنی رہائش ٹورنتو میں ائیر پورٹ کے پاس رکھیں گی تاکہ وہاں سے بآسانی آ جا سکیں۔
Utrop/ UFN