دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک

(سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں)
تحریر: عبدالرب کریمی۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
(دوسری قسط)
قریش کی بدسلوکیاں:قبیلہ بنو ہاشم کے سردار آپؐ کے چچا ابو طالب تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ابو لہب قبیلہ کا سردار بنا۔ اس نے سردار کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا، لیکن بہت جلد اس سے پھر گیا اور مخالفت میں پیش پیش رہا۔ اس دور میں جتنی اذیت اور تکلیف آپ کو دی گئی اس سے پہلے کبھی نہیں دی گئی تھی۔ ان ہی دنوں کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ آپؐ اپنے گھر کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے، ایک شخص بھیڑ کی بچہ دانی جو گندگی اور خون سے بھری تھی آپ کے اوپر پھینک دیتا ہے۔ آپؐ نے اسے صاف کیا۔ گھر سے باہر نکل کر لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: اے مناف کے بیٹو! تمہاری طرف سے یہ کیسا تحفظ ہے جو مجھے مل رہا ہے۔ اسی طرح ایک بار جب آپ حرم شریف سے باہر نکلے تو ایک شخص نے مٹی اٹھائی اور آپ کے چہرے اور سر پر پھینک دی۔ مکہ والے اسلام دشمنی میں بے لگام ہوچکے تھے۔ انھیں کسی کا پاس و لحاظ نہیں تھا۔
طائف میں لہولہان: ایسے سخت حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ سے مایوس اور بد دل ہوکر حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ طائف کا رخ کرتے ہیں ار وہاں قبیلہ ثقیف کے سرداروں (عبد یا لیل، مسعود اور حبیب) کو اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں، جسے سن کر وہ یکسر مستر کردیتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ طائف کے اوباش اور آوارہ لڑکوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ پورا طائف آپؐ کی جانب کا دشمن بن جاتا ہے۔ پتھروں سے مار مار کر آپؐ کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کی جوتیاں خون سے بھر جاتی ہیں۔ اسی بے بسی کے عالم میں آپؐ شہر سے نکل کر ایک باغ میں داخل ہوتے ہیں، زخموں کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ ہوش آنے کے بعد بارگاہ ایزدی میں دعا فرماتے ہیں:
’’بارِ الٰہا میں تیرے حضور اپنی بے بسی اور بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ تو سارے کمزوروں کا رب ہے۔ تو میرا بھی رب ہے۔ تو نے مجھے کس کے حوالے کر دیا ہے۔ کیا کسی بے گانے کے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے۔ یا کسی دشمن کے حوالے جس کو تو نے میرے اوپر قابو پانے کا حوصلہ دے دیا ہے۔ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں۔ مجھے اس سے بچالے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا تیری ناراضگی میرے حصے میں آئے۔ میں تیری مرضی پر راضی ہوں۔ یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے۔ کوئی قوت اور طاقت تیرے بغیر نہیں‘‘ (رحمۃ للعالمین)۔
طائف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو نازیبا سلوک ہوا،اسے دیکھ کر آسمان اور زمین بھی لرز جاتے ہیں، حضرت جبرئیل علیہ السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں کہ میرے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ موجود ہے، آپؐ اشارہ کردیں تو طائف کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں؛ یہ نا سمجھ ہیں، انھیں چھوڑدو۔ یہ ایمان نہیں لاتے ہیں تو ان کے بعد آنے والی ان کی نسلیں ضرور ایمان لائیں گی۔
ہجرتِ مدینہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب مشرکین مکہ کی اذیتوں اور مخالفت کا سلسلہ حد سے تجاوز کرنے لگا تو اللہ کے حکم سے آپؐ اپنے رفیق حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کرجاتے ہیں۔ صحابہؓ کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی ہجرت کرکے مدینہ پہنچ چکی تھی۔ مکہ والوں کی نگاہوں میں آپؐ صادق اور امین تھے۔ شدید دشمنی کے باوجود آپؐ کی دیانت پر لوگوں کو اس قدر اعتماد تھا کہ اپنی قیمتی امانتیں آپؐ ہی کے پاس رکھتے تھے۔ اس موقع پر بھی آپؐ کے پاس لوگوں کی امانتیں محفوظ تھیں۔ ہجرت سے ایک پہلے وہ امانتیں حضرت علیؓ کو بلاکر ان کے حوالے کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ میرے جانے کے بعد سب کی امانتیں بہ حفاظت ان تک پہنچا دینا۔
مدینہ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو امید تھی کہ اب کسی حد تک سکون میسر آئے گا۔ آزمائشوں اور اذیتوں کا طویل دور ختم ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہجرت کے کچھ دنوں بعد ہی قریش نے مدینہ کے ہونے والے سردار عبداللہ بن اُبَیْ کو پیغام بھیجا کہ تم نے مکہ سے گئے ہوئے لوگوں کو اپنے یہاں پناہ دی ہے۔ تم ان سے لڑو یا انھیں مدینہ سے باہر کردو، ورنہ ہم مدینہ پر حملہ کرکے تمہارے نوجوانوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو لونڈی بنالیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو آپؐ نے عبداللہ بن اُبی کے پاس تشریف لے گئے اور اسے سمجھایا کہ کیا تم قریش کو خوش کرنے کیلئے اپنے لوگوں (انصار) سے جنگ کروگے۔ اس وقت تک انصار کا ایک بڑا حصہ مشرف بہ اسلام ہوچکا تھا۔ جب قریش کے دھمکی آمیز خط نے عبداللہ بن ابی پر کام نہیں کیا تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ قریش کے ایک سردار کرز بن جابر الفہری نے اچانک حملہ کرکے مدینہ کے قریب کچھ جانوروں کو نقصان پہنچایا، کھجور کے درختوں کو کاٹ دیا اور ایک صحابیؓ کو شہید کرکے فرار ہوگیا۔ مسلمانوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ راتوں کو جاگ کر مدینہ کی حفاظت فرماتے رہے۔
جنگ بدر: جنگی تیاریوں کے ساتھ قریش مکہ سے نکل کر مدینہ سے اَسی (80) میل کی دوری پر مقام بدر پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے جاں نثار صحابہؓ کے ساتھ بدر پہنچ چکے تھے۔ یہیں پر حق و باطل کی پہلی جنگ (بدر) ہوئی۔ تین سو تیرہ (313) بے سرو سامان اور نہتے مسلمانوں کے سامنے ہر طرح کے ساز و سامان اور ہتھیاروں سے مسلح ایک ہزار (1000) قریش تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ کیلئے قطعی تیار نہیں تھے۔یہ اور اس کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئیں، خالص مدافعانہ تھیں یا ان طاقتوں کے خلاف تھیں جو اسلام اور مسلمانوں کو اس روئے زمین سے نیست و نابود کر دینا چاہتے تھے۔ اسی سال اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ’’اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں‘‘ (بقرہ:190)۔
حق و باطل کا معرکہ بظاہر بہت سخت تھا، علامہ شبلی نعمانی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ عجیب منظر تھا، اتنی بڑی دنیا میں توحید کی قسمت صرف چند جانوں پر منحصر تھی۔ صحیحین (بخاری و مسلم) میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت خضوع کی حالت طاری تھی۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر فرماتے تھے: خدایا تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے آج پورا کر۔ محویت اور بے خودی کے عالم میں چادر کندھے سے گر پڑتی تھی اور آپ کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔ کبھی سجدہ میں گرتے تھے اور فرماتے تھے کہ خدایا اگر یہ چندنفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تو نہ پوجا جائے گا‘‘۔ (سیرت النبیؐ، جلد اول، ص:198)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپؐ اس جنگ کیلئے قطعی تیار نہیں تھے۔ اللہ کی تائید اور نصرت آپؐ کے ساتھ رہی، حالات نے پلٹا کھایا اور لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔
جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک: جنگ بدر میں قریش کے ستر (70) بڑے سربر آوردہ لوگ میدان جنگ میں مارے گئے اور ستر (70) ہی گرفتار بھی ہوئے۔ جنگی قیدیوں کو مدینہ لاکر مسجد نبویؐ کے قریب رکھا گیا۔ بعد میں انتظامی سہولت کی خاطر دو دو چار قیدی صحابہؓ کے درمیان تقسیم کر دیئے گئے۔ ممتاز قیدیوں میں قبیلہ عامر کا سردار سہیل بھی تھا۔ یہ ام المومنین حضرت سودہؓ کا رشتہ دار تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس تھے۔ آپؐ کے داماد ابوالعاص (حضرت زینبؓ کے شوہر) اور چچیرے بھائی عقیل اور نوفل بھی تھے۔ آپؐ نے تمام قیدیوں کے بارے میں عمومی حکم دیا کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک کئے جائیں۔ جہاں تک ممکن ہو ان کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ صحابہ کرامؓ نے جن کی مالی حالت اچھی نہیں تھی، ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کیا۔ خود نہیں کھاتے تھے لیکن قیدیوں کو ضرور کھلاتے۔ ان قیدیوں میں حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بڑے بھائی ابو عزیز بن عمیر کا کہنا ہے کہ صحابہ جب کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود چند کھجوریں کھاکر کام چلا لیتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جنگی قیدیوں کے ساتھ جو فیاضانہ سلوک کیا وہ انسانی تاریخ میں ایک روشن مثال ہے۔ حالانکہ یہ قیدی اپنے جرم کے اعتبار سے اس کے مستحق تھے کہ ان کی گردنیں اڑا دی جاتیں یا عرب کے دستور کے مطابق انھیں غلام بنالیا جاتا۔ اس وقت جنگی قیدیوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ معمولی تاوان لے کر انھیں چھوڑ دیا جائے۔ ان قیدیوں میں مشہور ادیب اور شاعر سہیل بن عمرو بھی تھا جو اپنی فصاحت اور قادرالکلامی میں مشہور تھا اور عوام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس کے دو دانت توڑ دیئے جائیں تاکہ یہ اچھی طرح تقریر نہ کرسکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ جیسا کہ اوپر درج ہے کہ ان قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بھی تھے۔ آپؐ کی بیٹی حضرت زینبؓ اس وقت مکہ میں تھیں، انھوں نے شوہر کی رہائی کیلئے نقدی کے ساتھ ساتھ اپنے گلے کا قیمتی ہار بھیجا تھا۔ آپؐ نے دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔ صحابہؓ سے فرمایا: یہ ہار حضرت خدیجہؓ کی یادگار ہے، جسے انھوں نے بیٹی زینب کی شادی میں بطور تحفہ دیا تھا۔ تم مناسب سمجھو تو ایک بیٹی کو اس کی ماں کا یادگار تحفہ واپس کردو۔ صحابہؓ نے عقیدت و احترام کے ساتھ آپؐ کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے کسی طرح کا تاوان لئے بغیر ابوالعاص کو رہا کر دیا۔ کچھ ایسے قیدی بھی تھے جو اپنی تنگ دستی اور غربت کی وجہ سے کچھ نہیں دے سکتے تھے، انھیں بھی رہا کر دیا گیا۔ البتہ تعلیم یافتہ قیدیوں کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ وہ کچھ بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں تو رہا کر دیئے جائیں گے۔
حسنِ سلوک کی ایک اور مثال: مدینہ میں عبد اللہ بن اُبی بظاہرہ مسلمان تھا مگر اندرونی طور پر وہ ان لوگوں سے ملا ہوا تھا جو ہر آن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اس کی ہر کوشش اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوتی تھی ۔ وہ اسلام کے استیصال کیلئے ہر سازش میں شریک رہا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کا نمونہ پیش کیا۔ یہاں تک کہ اس کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے کئی بار ایسا ہوا کہ اسے قتل کرنے تک کی نوبت آئی، مگر آپؐ نے اس کی ہر خطا کو نظر انداز فرمایا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے کفن کیلئے آپؐ نے اپنا کرتا دیا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ (جاری)

موبائل: 9831439068 azizabdul03@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں