اسلامی خلافت کے چوتھے خلیفہ، حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے دور خلافت میں تین بڑی جنگیں ہوئیں: جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان۔ ان میں سے جنگ نہروان وہ معرکہ تھا جو حضرت علیؑ اور خوارج (ایک انتہا پسند گروہ) کے درمیان پیش آیا۔ یہ جنگ نہ صرف فوجی ٹکراؤ تھا بلکہ ایک فکری، اعتقادی اور سیاسی جدوجہد تھی، جس نے امت مسلمہ میں انتہا پسندی کی جڑوں کو بے نقاب کر دیا۔
پس منظر – خوارج کی پیدائش
جنگ نہروان کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے “خوارج” کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔
● خوارج کون تھے؟
خوارج وہ لوگ تھے جو پہلے حضرت علیؑ کے لشکر میں شامل تھے، مگر جنگ صفین میں تحکیم (ثالثی) کے فیصلے کے بعد انہوں نے حضرت علیؑ کو بھی “کافر” قرار دے دیا، اور علیحدہ گروہ بنا کر “اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں” کا نعرہ بلند کیا۔
ان کا نعرہ تھا:
“لا حکم إلا لله” (حکم صرف اللہ کا ہے)
بظاہر یہ نعرہ بہت مقدس تھا، مگر حضرت علیؑ نے فرمایا:
“کلمۃ حق، یراد بہا الباطل”
(یہ سچی بات ہے، مگر مقصد غلط ہے)
خوارج کے عقائد
جو گناہ کبیرہ کرے، وہ کافر ہے۔
حضرت علیؑ، حضرت عثمانؓ، اور حضرت معاویہؓ سب کو وہ کافر سمجھتے تھے۔
وہ اپنے آپ کو “حق پرست” اور باقی سب کو “باطل پرست” سمجھتے تھے۔
ان کا فہم قرآن اور دین کی اصل روح سے ہٹا ہوا تھا، وہ ظاہر پرستی کے قائل تھے۔
خوارج کی بغاوت
صفین کے بعد خوارج نے حضرت علیؑ کے لشکر سے علیحدگی اختیار کر کے نہرِ نَہْرَوَان (عراق میں موجود ایک جگہ) کے قریب ڈیرہ جمایا، اور ہر اس شخص کو جو ان کے عقائد سے متفق نہ ہوتا، قتل کرنا شروع کر دیا۔
حتیٰ کہ ایک مسلمہ صحابی، عبداللہ بن خباب بن ارتؓ اور ان کی حاملہ زوجہ کو بےدردی سے شہید کر دیا گیا۔
یہ ظلم سن کر حضرت علیؑ کو مجبوراً ان کے خلاف فوج کشی کرنا پڑی۔
جنگ نہروان کا آغاز
📅 سال: 38 ہجری
📍 مقام: نہروان (کوفہ کے قریب)
حضرت علیؑ نے پہلے ان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی، اور ان کے سامنے تین شرائط رکھیں:
جس نے خون بہایا ہے، وہ مجرم ہے۔
جس نے دوسروں کو قتل کیا، اسے سزا دی جائے گی۔
باقی اگر توبہ کریں تو امان دی جائے گی۔
کچھ خوارج نے توبہ کر لی، مگر اکثریت نے جنگ پر اصرار کیا۔
معرکہ نہروان
حضرت علیؑ نے تقریباً 4 ہزار خوارج کے مقابلے میں 12 ہزار کا لشکر لے کر چڑھائی کی۔ شدید جنگ کے بعد خوارج کو شکست ہوئی۔
✅ نتیجہ:
تقریباً 3,900 خوارج قتل ہوئے۔
حضرت علیؑ کے لشکر میں صرف 9 افراد شہید ہوئے۔
یہ فتح حق کی فتح تھی، مگر حضرت علیؑ کو افسوس تھا کہ ایسے لوگ دین کے نام پر گمراہ ہوئے۔
حضرت علیؑ کے اقوال و انداز
حضرت علیؑ نے جنگ سے پہلے فرمایا:
“میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے اہلِ نجران کے ساتھ کیا تھا: حق واضح کر دیا، اور جس نے انکار کیا اس سے فیصلہ میدان میں ہوا۔”
جنگ کے بعد انہوں نے فرمایا:
“میں نے خوارج کو ختم کر دیا، مگر ان کے نظریات باقی رہیں گے۔”
یہ جملہ آج بھی سچ ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ انتہا پسندی کا بیج وہیں سے بویا گیا۔
خوارج کا انجام اور باقیات
خوارج بظاہر ختم ہو گئے، مگر ان کی فکر مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے ابھرتی رہی:
قرونِ وسطیٰ میں چند فتنہ پرور گروہ
بعد ازاں بعض شدت پسند جماعتیں
جدید دور میں بھی خوارج جیسی سوچ رکھنے والے انتہا پسند گروہ اب بھی موجود ہیں۔
جنگ نہروان کے اثرات
امت کو انتہا پسندی کی پہچان ملی
حضرت علیؑ نے واضح کیا کہ صرف نماز، روزہ، عبادت کافی نہیں، اصل دین کا فہم اور رحم بھی ضروری ہے۔
سیاسی اور دینی علیحدگی
خوارج نے پہلی بار دین کو انتہاپسند سیاست کے لیے استعمال کیا۔
امام علیؑ کی بصیرت کا ظہور
انہوں نے خوارج کو نہ صرف سیاسی، بلکہ فکری طور پر بھی شکست دی۔
سبق اور نتیجہ
دین کی بنیاد علم، توازن، فہم قرآن اور رحمت ہے، نہ کہ ظاہر پرستی۔
خوارج نے جو راستہ اختیار کیا، وہ انتشار، فساد اور ظلم کا راستہ تھا۔
حضرت علیؑ نے عدل، گفتگو اور برداشت کو ہمیشہ ترجیح دی، اور جب ظلم حد سے بڑھ گیا تب ہی تلوار اٹھائی۔
خوارج کا انجام بتاتا ہے کہ دین کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے والوں کا انجام دنیا و آخرت میں رسوائی ہے۔
Recent Comments