جنگ جمل – امت مسلمہ کی پہلی خانہ جنگی
اسلامی تاریخ میں جنگ جمل وہ پہلا معرکہ ہے جس میں صحابۂ کرامؓ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے۔ یہ جنگ حضرت علی بن ابی طالبؑ (چوتھے خلیفہ راشد) اور حضرت عائشہؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ نے مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا دھارا بدل دیا، اور بعد میں ہونے والی خانہ جنگیوں کی راہ ہموار کی۔
🌙 پس منظر – خلافت عثمانؓ اور شہادت
حضرت عثمان بن عفانؓ (تیسرے خلیفہ راشد) کا طویل دورِ خلافت (12 ہجری سے 35 ہجری) اختتام کو پہنچا جب انہیں ایک گروہ نے مدینہ میں شہید کر دیا۔ ان کے خلاف کئی الزامات لگائے گئے، جن میں گورنروں کی نااہلی، اقربا پروری اور بدعنوانی شامل تھی۔ ان الزامات کی بنیاد پر باغیوں نے مدینہ کا محاصرہ کیا، اور حضرت عثمانؓ کو گھر میں محصور کر دیا گیا۔
بالآخر 35 ہجری کو حضرت عثمانؓ شہید کر دیے گئے۔ ان کی شہادت نے پورے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔
⚖️ حضرت علیؑ کی خلافت اور حالات
حضرت علیؑ کو لوگوں نے شدید اصرار کے بعد خلیفہ منتخب کیا۔ آپؑ نے خلافت قبول تو کر لی، لیکن بہت سے صحابہؓ اس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے، جن میں حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ، اور حضرت زبیرؓ شامل تھے۔ ان حضرات نے حضرت علیؑ کی بیعت پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا، اور خاص طور پر مطالبہ کیا کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو فوراً سزا دی جائے۔
حضرت علیؑ کا موقف یہ تھا کہ پہلے حالات کو سنبھالا جائے، پھر مکمل تفتیش کے بعد انصاف کیا جائے، ورنہ خانہ جنگی ہو جائے گی۔
🐪 جنگ جمل کا نام “جمل” کیوں رکھا گیا؟
یہ جنگ چونکہ حضرت عائشہؓ اونٹنی پر سوار تھیں، اور پوری جنگ کے دوران اُن کا اونٹنی پر سوار رہنا مرکزی مقام کی حیثیت رکھتا تھا، اس لیے اس کو “جنگ جمل” (جمل = اونٹ) کہا جاتا ہے۔
🛡️ جنگ کا آغاز – مقام اور تاریخ
-
📍 مقام: بصرہ (موجودہ عراق)
-
📅 سن: 36 ہجری (656 عیسوی)
حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ، اور حضرت زبیرؓ نے بصرہ کا رخ کیا تاکہ عوام کو حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے خلاف اُبھارا جا سکے۔ حضرت علیؑ بھی کوفہ سے بصرہ پہنچے تاکہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے۔
🤝 صلح کی کوششیں
ابتدائی طور پر دونوں طرف سے صلح کی بات چیت ہوئی۔ حضرت علیؑ اور حضرت زبیرؓ نے ملاقات کی۔ حضرت علیؑ نے یاد دلایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا تھا:
“اے زبیر! تم علی سے ناحق جنگ کرو گے۔”
حضرت زبیرؓ نے کہا: “اگر مجھے وہ بات یاد ہوتی تو کبھی تلوار نہ اٹھاتا۔”
حضرت زبیرؓ جذباتی طور پر جنگ سے پیچھے ہٹ گئے، مگر حالات اس وقت قابو سے باہر ہو چکے تھے۔
🔥 فتنہ – رات کی لڑائی اور دھوکہ
رات کے وقت ایک سازشی گروہ (جسے بعض مؤرخین “قاتلانِ عثمان” قرار دیتے ہیں) نے اچانک جنگ شروع کر دی تاکہ صلح نہ ہو سکے اور حالات بگڑ جائیں۔ اس کے نتیجے میں دونوں فوجیں ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر لڑ پڑیں۔
⚔️ جنگ جمل کا منظر
حضرت علیؑ کی فوج اور حضرت عائشہؓ، طلحہؓ، زبیرؓ کی فوج کے درمیان شدید جنگ ہوئی۔
-
حضرت زبیرؓ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جنگ سے الگ ہو گئے اور راستے میں ایک بدبخت نے انہیں قتل کر دیا۔
-
حضرت طلحہؓ کو بھی زخم آئے اور وہ شہید ہو گئے۔
-
حضرت عائشہؓ کو ایک اونٹنی پر سوار رکھا گیا، جو میدان جنگ میں موجود تھی۔ اسی اونٹ کو مرکز سمجھ کر دونوں طرف سے جنگ لڑی جا رہی تھی۔
حضرت علیؑ نے حضرت عائشہؓ کو عزت کے ساتھ محفوظ کیا اور جنگ کے بعد انہیں بصرہ سے مدینہ روانہ کر دیا۔
📉 نتائج جنگ جمل
✅ شہادتیں:
-
تقریباً 10,000 مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے۔
-
دونوں طرف صحابہ، تابعین اور عام مسلمان جاں بحق ہوئے۔
✅ حضرت علیؑ کا عدل:
حضرت علیؑ نے حضرت عائشہؓ کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجا اور ان کے ساتھ اہل بصرہ کے کچھ افراد کو حفاظت کے لیے بھیجا۔
✅ فتنے کی ابتدا:
یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بڑی جنگ میں آمنے سامنے آئے، جس نے امت کے اتحاد کو چیلنج کیا۔
📚 اہل سنت کا موقف:
اہل سنت والجماعت کے نزدیک دونوں طرف صحابہ حق پر تھے، مگر اجتہادی اختلاف تھا۔ حضرت علیؑ قریب تر الی الحق (حق کے قریب تر) تھے، لیکن حضرت عائشہؓ، طلحہؓ، اور زبیرؓ کا مقصد بھی انصاف اور فتنہ سے بچاؤ تھا۔
📌 سبق اور نتیجہ
-
سیاسی اختلاف اگر شدت اختیار کرے تو خونریزی کا باعث بن سکتا ہے۔
-
فتنہ پرور عناصر صلح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔
-
حضرت علیؑ کا عدل، صبر اور بردباری قیامت تک مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے۔
-
حضرت عائشہؓ کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ نیت نیک ہو، تب بھی فتنہ ساز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
📜 اقوالِ حضرت علیؑ جنگ جمل کے بعد:
“میرا اور ان کا اختلاف اجتہادی تھا، نہ کہ دینی۔ وہ ہمارے بھائی ہیں، ہم ان سے جنگ کرنے پر مجبور ہوئے، مگر ان کی عزت محفوظ ہے۔”
تقریباً 10,000 مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے۔
دونوں طرف صحابہ، تابعین اور عام مسلمان جاں بحق ہوئے۔
✅ حضرت علیؑ کا عدل:
حضرت علیؑ نے حضرت عائشہؓ کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجا اور ان کے ساتھ اہل بصرہ کے کچھ افراد کو حفاظت کے لیے بھیجا۔
✅ فتنے کی ابتدا:
یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بڑی جنگ میں آمنے سامنے آئے، جس نے امت کے اتحاد کو چیلنج کیا۔
📚 اہل سنت کا موقف:
اہل سنت والجماعت کے نزدیک دونوں طرف صحابہ حق پر تھے، مگر اجتہادی اختلاف تھا۔ حضرت علیؑ قریب تر الی الحق (حق کے قریب تر) تھے، لیکن حضرت عائشہؓ، طلحہؓ، اور زبیرؓ کا مقصد بھی انصاف اور فتنہ سے بچاؤ تھا۔
📌 سبق اور نتیجہ
سیاسی اختلاف اگر شدت اختیار کرے تو خونریزی کا باعث بن سکتا ہے۔
فتنہ پرور عناصر صلح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔
حضرت علیؑ کا عدل، صبر اور بردباری قیامت تک مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے۔
حضرت عائشہؓ کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ نیت نیک ہو، تب بھی فتنہ ساز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
📜 اقوالِ حضرت علیؑ جنگ جمل کے بعد:
“میرا اور ان کا اختلاف اجتہادی تھا، نہ کہ دینی۔ وہ ہمارے بھائی ہیں، ہم ان سے جنگ کرنے پر مجبور ہوئے، مگر ان کی عزت محفوظ ہے۔”
Recent Comments