جنگل کی آواز…ناول مصنفہ نجمہ محمود

قیمت : مبلغ ۳۰۰روپے

=
ملنے کے پتے:
( (i وژن پبلیکیشنز،ایف ۵، عظیم ریذیڈینسی،نزد مدنی مسجد،نیوسرسید نگر، علی گڑھ
موبائل : ۰۹۸۳۷۲۱۴۰۶۹ فون : ۶۴۵۳۴۱۴۔۰۵۷۱
(ii) ایجوکیشنل بک ہاؤس شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ۲۷۰۱۰۶۸۔۰۵۷۱

Jungal ki Aawaaz
by Najma Mahmood
Year of Publicatipon – 2011
Price: Rs. 300
Published by-Vision Publications
(F.5 (Flat No.5) Azeem Residency, Near Madni Masjid, Behind Zakaria Market,New Sir Syed Nagar, Aligarh
Ph. 0571/ 6453414 Mob. 09837214069

’نجمہ محمود میں بڑا ادیب بننے کے جراثیم ہیں‘‘(۱۹۶۲)
سید سجاد ظہیر
’’جنگل کی آواز ‘‘ میں جزو کُل پر حاوی ہے۔ ناول نگار نے اسے ’’مختصر ترین ناول‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک بڑے ناول کا پہلا باب ہے۔ اس کا تعارف کرتا ہے۔ اس کی شیرازہ بندی کرتا ہے۔ یہ غمّاز ہے تکوینِ کائنات کے اس رمز کا کہ قطرہ کو دریا اور ذرّہ کو خورشید سے جُدا نہیں کرسکتے …………… یہ افسانہ پیکر ناول لکھ کر نجمہ صاحبہ نے اپنانام عالمی ادب سے وابستہ ان خلاّق اور حقیقت رس مفکرین، مصنفین اور شعرا کی فہرست میں درج کرادیا ہے جو زندگی کو بے حِسی اور بے دلی سے برتنے کے بجائے اس کے ظالم فشار کو اپنی نَس نَس میں محسوس کرتے رہے ہیں اور جنہوں نے اس کے خلاف جنگل کی آواز میں آواز ملاکر احتجاج پر کمر ہمت باندھی ہے۔
راقم سطور کو گزشتہ چند سالوں میں ان کی نگارشات کو دیکھنے کا موقع ملا ہے ان کے مختصر ترین ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ اس اثناء میں زبان وبیان پر قدرت اور فکر کی بالیدگی اور فنّی شعور کے ارتقا اور عالمی مسائل کے ادراک اور انجذاب میں انہوں نے بہت سی منزلیں طے کرلی ہیں۔
سید حامد
تعلیم آباد
۲۵ جون ۲۰۰۹ء
نجمہ محمود نے ہرطرح کے افسانے لکھے ہیں۔بچوں کوسلانے والی خواب آور چڑیا چڑے کی کہانی کی تکنک سے علامتی اسلوب تک اور کردار سازی سے بیانیہ انداز تک سب کچھ ان کے افسانوں میں مل جائے گا۔ ان افسانوں میں نیا طرز احساس ہے لیکن رومانیت کی زیریں لہر سے عاری نہیں۔ صحیح رویہ یہ ہوگا کہ ان کوافسانہ سمجھ کر پڑھا جائے۔ افسانے میں افسانویت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ نجمہ کو ہرانداز میں کہانی کہنے کافن آتاہے۔اس لئے تو قع کی جانی چاہیے کہ وہ افسانے سے اپنی انفرادیت منوالیں گی‘‘۔(۱۹۸۲ء)
وحید اختر
عنوانات
صفحہ
پیش لفظ ۱
کہانیاں
۱۔ میراث ۲۱
۲۔ پانی اور چٹّان ۲۷
۳۔ تحفہ ۵۳
۴۔ لہر لہر سمندر ۵۹
۵۔ مٹی کا مادھو ۶۶
۶۔ آسماں تیری لحدپر ۷۳
۷۔ بوڑھا برگد ۷۹
۸۔ آئینے کی تصویر ۸۶
۹۔ نرگس کے پھول ۹۳
۱۰۔ اپنا پرایا ۱۰۱
۱۱۔ خالی جھولی ۱۰۹
۱۲۔ غار ۱۱۳
۱۳۔ وجود کے سوتے سے جدا ۱۲۰
تذکرے
۱۔ ذکر ایک مشعل بہ کف اور قندیل بہ چشم کا
۲۔ قصہ ایک درخت کا ۱۳۲
۳۔ دوسری دنیا کا با سی ۱۳۴
۴۔ نشاناتِ نور ۱۳۶
۵۔ مشک کی خوشبو ۱۳۹
افسا نے
۱۔ گل مُہر کے سائے تلے ۱۴۳
۲۔ املتاس کی چھاؤں میں ۱۵۲
۳۔ چنار کے سائے تلے ۱۶۴
ناول
۱۔ مانجھی ۱۷۹
۲۔ صنوبر کے سائے تلے ۱۸۱
۳۔ جنگل کی آواز ۲۰۵کہتی ہے خلق خدا

۱۔ سید حامد ۲۱۹
۲۔ حقانی القاسمی ۲۱۹
۳۔ ابوالکلام قاسمی ۲۱۹
۴۔ ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی ۲۲۰
۵۔ مقصود الہی شیخ ۲۲۱
۶۔ خان جمیل ۲۲۲
۷۔ نجم الحسن رضوی ۲۲۳
۸۔ شکیل احمد ۲۲۳
۹۔ عبد الرحمن ۲۲۳
۱۰۔ اعجاز شاہین ۲۲۳
۱۱۔ سید حامد ۲۲۴
۱۲۔ سید سجاد ظہیر ۲۲۵
۱۳۔ رضیہ سجاد ظہیر ۲۲۵
۱۴۔ قاضی عبد الستار ۲۲۶
۱۵۔ وحید اختر ۲۲۶
۱۶۔ حقانی القاسمی ۲۲۶
۱۷۔ سلام بن رزاق ۲۲۸
۱۸۔ احمد ہمیش ۲۲۸
۱۹۔ شکیل الرحمن ۲۲۹
۲۰۔ وہاب اشرفی ۲۲۹
۲۱۔ مشتاق صدف ۲۳۰
۲۲۔ شیخ محمد صادق ۲۳۱
۲۳۔ عظیم اختر ۲۳۳
مضامین
۱۔
نجمہ محمود کا نشان امتیاز
سید حامد
۲۳۷
۲۔
پانی اور چٹان ۔ ایک جائزہ
ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی
۲۴۴
۳۔
وہ اپنی مشعل احساس لے کے جب نکلے
شہناز کنول غازی
۲۴۷
۴۔
خوا تین کے حقوق کی علمبردار نجمہ محمود
پروفیسرصغریٰ مہدی
۲۵۵
۵۔
جریدہ رو کہ گذرگاہ عافیت تنگ ست
صبیحہ ناز لاری
۲۵۷
۶۔
نجمہ محمود کا تخلیقی تنوع

عارف حسین جونپوری

پیش لفظ

کہانی کی وہ تعریف کہ یہ ’’ کسی خاص لمحہ کو گرفت میں لانے کا نام ہے۔ وہ تیرتے اور بہتے ہوئے لمحے جو عموماً پکڑ میں مشکل سے آتے ہیں ان کو لازوال بنانا کہانی کا اصل مقصد ہے‘‘۔۔۔ قابل قبول ہے کہ یوں اچھی کہانی بہ ذات خود شعر بن جاتی ہے۔ ایک ایسا فن پارہ جو عصری حسیت کو خود میں سموئے ہوئے ہو ساتھ ہی جو’’ وارفتگی ومحویت و نغمگی کی ایک ایسی خوابناک دنیا میں قاری کو کھینچ لے جائے جہاں چہار سمت مسرت وانبساط کی روشنی بہہ رہی ہو۔ جو اس کے رگ وپے میں سرایت کر جائے‘‘، اس کو سکون بخش سکے اور تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی وہ وجود کے کرب سے نجات حاصل کرسکے، اس میں سرشاری کی کیفیت اور جمالیاتی حظ پیدا ہو سکے!
دنیا کی بہترین شاعری کہانیوں کو سموئے ہوئے ہے شاعری جسے’’ انسان کا بہترین کلام ‘‘ کہا گیا ہے ، ’’ علم کی روح اور تنفّس کہا گیا ہے۔ مثال کے طور پر رومیؔ جنہوں نے کہانی اور شاعری کو یکجا کر کے معجزے دکھائے۔۔۔ دانتے اور شیکسپیئر نے بھی یہی کیاورجینیا وولف نے ناول میں شاعری کی۔۔۔خلیل جبران کی تحریر یں شاعری بھی ہیں اور افسانہ بھی۔۔۔ معرفت ، تصوف ، پیغامبری اور خلیل جبران بلند ترین چوٹی پر کھڑا ہوا فن کار ہے اس پر فقط شاعر یا افسانہ و ناول نگار کا ٹھپّہ نہیں لگا یا جاسکتا۔اور قرآن حکیم میں بہترین کہانیاں اور شاعری موجود ہے۔
قیصر تمکین مرحوم نے اپنے معرکتہ الآرا مضمون ’’ فکشن نگاری ۔ ایک لمح�ۂ فکریہ ‘‘ میں کہا تھا۔
’’ شاعری اگر پیغامبری ہے تو افسانہ خدائی ہے‘‘
ادب کو خانوں میں تقسیم کرنا غیر مستحسن ہے کہ یوں ادب اور ادیب دونوں محدود ہو جاتے ہیں۔۔۔کسی بھی فن پار ے میں ہم فن کار سے ہی ملتے ہیں اور وہ اپنی حسّیت اور اصل شخصیت کو صرف اپنے فن میں ہی ظاہر کرپاتا ہے ورنہ دنیا اسے کچھ کا کچھ سمجھتی رہتی ہے کہ بڑی شخصیت سمندر کے مانند ہو ا کرتی ہے۔۔۔شیکسپیئر اپنی تخلیقات میں ہر جگہ موجود ہے۔ آفاقی موضوعات ( تصّور انسان ، عشق ،خودی ،وقت ،حسن، فنا، بقا، انسانی رشتوں کی المناک ریزش ) کے ذریعہ وہ اظہار ذات کرتا ہے۔ اور ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ نبوغی شخصیت کا مالک تھا، صوفی تھا، روح کا معالج تھا، اس میں گہری مذہبیت تھی۔ انگریزی کی رومانی تحریک کا اہم ترین موضوع شخصیت کا تصور تھا جس کے بیج شیکسپیئر کی کہانیوں اور شاعری نے بوئے تھے( اس پر فقط ڈرامہ نگار کا ٹھپّہ لگا نا اسے محدود کرنا ہے تھیٹر اس کی پیشہ وارانہ مجبوری اور ضرورت تھی۔۔۔ سیموئیل جانسن اور کولرج نے اسے شاعر کہا تھا) خصوصاً اس کے سانیٹس، میں پیش کردہ’’خوب رو‘‘ ،نوجوان‘‘ اور اس کے طربیوں کی نسائی شخصیات۔۔۔ روز النڈ، پورشیا وغیرہ نے۔ اس کا تخیل زرخیز و بے کراں اور دل انسانی ہمدردی سے لبریز تھا۔ اس نے حسن کا ادراک کیا تھا ۔ اس کاذہن امتزاج تھا عقل و و جدان کا جوکہ دائروی شخصیت کی پہچان ہے۔۔۔کسی کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے مستند سرچشمہ اس کی تحریر ہوتی ہے (بہ شرطیکہ وہ فنکار ریا کار نہ ہو) جس کے ذریعہ وہ اپنی ذات کومربوط اور مجتمع کرتا ہے ۔ تخلیق سے غیر مخلص، نمائشی رغبت اور اس کے خالق سے بے اعتنائی ( جو امریکی نئی تنقید کا خاصہ تھی) قطعاً مادہ پرستی اور اکہراپن ہے۔ یہ اس روشن خیال کی تردید کرتی ہے کہ ذرّہ ذرّہ میں خدا کا ظہور ہے، اسی کا نور ہے۔ اگر قول وفعل میں تال میل ہے، ریاکاری نہیں خلوص ہے تو اس فنکار کا مطالعہ اس کی تخلیقات سے بڑھ کر کسی اور طریقہ سے ممکن نہیں اس کے بر خلاف جو سوچ ہے وہ قطعاً بد دیانتی ہے۔
مندرجہ بالا تو جیہات کے پیش نظر اس افسانوی مجموعہ کی تخلیقات ایک فنکار کا مطالعہ ہیں، انسان کا مطالعہ ہیں۔۔۔۔ذاتی بھی ہیں اور آفاقی بھی۔ ایک سفر کی داستان۔ مرکز سے دائرے اور دائرے سے مرکز تک کا سفر ! مجھے اپنے افسانوں کے بارے میں کبھی کوئی زعم نہیں رہا۔ ان کی اہمیت کا کبھی احساس ہی نہ ہوا ۔ اسے آپ میری کسر نفسی اور انکساری پر ہی محمول کریں ( کہ یہ میری طبیعت کا خاصہ ہے) مجموعہ کے شروع اور آخر میں دی گئی معتبر ناقدین اور قارئین کی رائیں میرے اس خیال کی تائید کریں گی۔
افسانوی مجموعہ ’’پانی اور چٹّان‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع کرانے کا ارادہ تھا

Continue
اپنا تبصرہ لکھیں