ترقی پر ہمارا حق نہیں

شہزاد بسراء
ُپاکستان میں سڑکیں ہماری خواتین توڑتی ہیں۔ذرا ملاحظہ فرمائیں
’’ماسی جلدی سے صحن دھولے ۔ پھر بجلی چلی جائے گی۔ اور پانی ختم ہو جائے گا‘‘
ماسی بھی اسی انتظار میں تھی کہ بجلی آئے اور صحن دھو لے۔ جِس دن بجلی نہیں ہوتی ماسی کو پھر پورے صحن میں پوچا لگانا پڑتا ہے۔ جو دھونے سے کہیں زیادہ مُشقّت والا کام ہے۔بار بار پوچی کو اچھی طرح دھونا پڑتا ہے پھرنچوڑو اور زور لگا لگا کے فرش رگڑو۔ پھر وہی عمل۔ اوپر سے بیگم کی مسلسل جھڑکیاں
’’گندہ کپڑا پھیر رہی ہو، یہاں سے تو سُوکھا رہ گیا۔ دھو کر لاؤ اور دوبارہ پوچا لگاؤ‘‘
دھونا آسان کام ہے، پائپ لگاؤ، کھلے دل پانی بہاؤ اور وائیپر سے تھوڑا خشک کر دو، تھوڑی دیر بعد صحن خود بخود خُشک ہو کے چمک رہا ہوتا ہے۔ماسی بھی خوش اور بیگم بھی خوش، ہاں تھوڑا پانی زیادہ لگ جاتا ہے تو کیا ہوا؟ تھوڑی بجلی ضائع ہو جاتی موٹر چلنے سے، تو کیا ہوا؟ پانی اور بجلی تو قدرت نے ہمیں مفت اور بے حساب عنائیت کر رکھیں ہیں۔یہ ہمارے ہاں کا تقریباً روزانہ کا معمول ہے کہ خواتینِ خانہ کو صحن دھلوانے کی بڑی فکر رہتی ہے اور بعض اوقات تو لگتا ہے کہ صحن کو ثواب سمجھ کر دھویا جاتا ہے۔جِس دِن صحن نہ دھل سکے خاتونِ خانہ اپنے کو مجرم سمجھتی رہتی ہیں۔
گلی میں جہاں سڑک میں گڑھا پڑا ہو گا ۔ یقیناًوہاں سامنے والے گھر میں صحن باقاعدگی سے دھویا جاتاہے۔ چونکہ پانی کا مناسب سوریج میں نکاس نہیں ہوتا۔ چنانچہ پانی صحن سے باہر سڑک کی طرف بہہ نکلتاہے۔ ابھی پچھلے دن کا پانی سوکھتا نہیں کہ اگلے دن پھر صحن دھل جاتا ہے اور سڑک مسلسل گیلی رہتی ہے۔ گیلی سڑک مسلسل ٹریفک گزرنے سے آہستہ آہستہ ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ وہاں گڑھا پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ بارشوں کے موسم میں یہ گڑھا بڑھ جاتا ہے اور آنے جانے والوں کے لئے مصبیت اور آزار کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح کے گڑھے جگہ جگہ بن جاتے ہیں پھر کئی سال کی اہلِ محلہ اور اہل علاقہ کی مسلسل کوششوں سے بالآخر کسی قریب آتے الیکشن مہم کے سلسے میں ہزاروں کی سڑک لاکھوں روپے میں بن جاتی ہے۔ ابھی نئی نئی سڑک کا چاؤ بھی پورا نہیں ہوتا کہ گھر کے صحن کی صفائی کی شوقین خواتین پھر سے وہ سلسلہ وہیں سے شروع کردتیں ہیں جہا ں سے ٹوٹا تھا ۔ سڑک ٹوٹتی ہے تو ٹوٹے ۔ صحن تو صاف ہو جاتا ہے۔

غالباً 70کی دہائی کے اویل کا زمانہ تھا۔جرمنی میں ایک 15 سالہ لڑکا اپنے والد کو شیو بناتے دیکھ رہا تھا۔ نل کھلا ہوا تھا اور اس کا والد مزے سے شیو بنا رہا تھا۔ لڑکا حساب لگانے لگا کہ تقریباً 8منٹ صرف ہوئے شیونگ کے عمل کے دوران ۔ لڑکا سوچنے لگا کہ تقریباً 2گیلن تو پانی ضائع ہو ا ہوگا۔جرمنی کی کل آبادی لگ بھگ8کروڑ تھی اور اس کی آدھی آبادی مردوں پر مشتمل تھی یعنی چار کروڑ ۔ بچوں کو نکال دیا جائے تو پھر بھی کم از کم ڈیڑھ کروڑ لوگ تو روز شیو کرتے ہونگے ۔ اب ڈیڑھ کروڑ لوگ 2گیلن فی مرد کے حساب سے 3کروڑ گیلن پانی ہر روز صرف شیوپر لگ جاتاہے۔ اس حساب سے 10ارب 95کروڑ گیلن پانی ہرسال صرف شیونگ کے دوران ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ سوچ کر لڑکا پریشان ہو گیا اور مزید حساب لگانے لگا کہ 10ارب 95کروڑ گیلن پانی تو ایک بڑے ڈیم کا بھی نہیں ہوتاہوگا۔ اور اتنا پانی سپلائی کرنے کیلئے تو بہت زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہوگی ۔ اتنی زیادہ بجلی پیدا کرنے کیلئے تو کافی اخراجات آتے ہونگے ۔ پھر اتنا پانی سیوریج میں جاتا ہوگاتو اسے کھینچنے کیلئے بھی توانائی اور مشینری کا استعمال ہوتاہے۔ اتنا پانی ذراعت اور دوسرے کاموں میں استعمال ہوسکتاہے۔ اگر سب مرد شیونگ کے دوران نل کھولنے کی بجائے صرف ایک مگ بھر کے شیوکر لیا کریں اور بجلی اور دیگر توانائی کی بچت بھی ۔
لڑنے نے اس پر ایک مضمون لکھا اور اخبار میں بھیج دیا۔ مضمون نے تہلکا مچادیا اور چند ہی دنوں میں اس کے تراجم تقریباً پوری دنیامیں خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں چھپ گئے۔ اگرچہ اُن دنوں ابھی انٹرنٹ کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا اورTV بھی بہت عام نہیں ہوا تھا صرف اخبارات میں ایک عام سے لڑکے کے مضمون سے کروڑوں لوگ پانی کے اسراف سے تائب ہوگئے اور تب سے پوری ترقی یافتہ اقوام نے شیونگ کے لئے نل کھولنے کی بجائے مگ کا استعمال ہی کیا ہے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ جن کی حرمت پہ ہم اربوں مسلمان جان دینے کو تیار رہتے ہیں اور جان ہی دینے کو تیار، اُن کی باتیں ماننا بہت مشکل ہے ۔ مگر جان ہر لمحہ حاضر۔ انہوں نے فرمایا تھاکہ جو شخص ایک مُدھ (544 ml)سے زیادہ پانی وضو اور 5 مُدھ (2176 ml)سے زیادہ پانی غُسل کیلئے استعمال کرے گااسے قیامت کے روز اس کا حساب دینا ہوگا۔ شیو کیلئے تو 2گیلن پانی استعمال ہوتا ہوگا۔ وضو کیلئے تو کئی گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے۔جان دینے کو تیار مومن نل کھول کے آدھا گھنٹہ تو صرف مسواک ہی کرتا ہے، پورا نل کھلا چھوڑ کر مسجد کمیٹی کے مسائل بھی دو، ایک لوگوں سے بات چیت کر لیتا ہے۔ پھر کہیں جا کر وضو کا عمل شروع ہوتا ہے تو پھر صدیوں کی میل کچیل کو مل مل کر آس پاس کو تقریباََ نہلا کر ایک مدت بعد وضو مکمل ہوتا ہے۔ ہم نے نبی ﷺ کی طرح رہنا نہیں مگر اُن کی مدح سرائی کر کے اُن کی شفات اور سارے جہاں کی خرابیاں کر کے صرف مُصلہ پر بیٹھ کر اللہ کو راضی کرنے کے چکر میں ہیں۔جبکہ جو باتیں ہمارے لیے نبی ﷺ نے بتائیں اُن کو اپنا کے اقوام ترقی کر گئیں۔ ترقی پر ہمارا کوئی حق ہی نہیں بنتا بلکہ ترقی ان قوموں کا حق بنتی ہے جو صرف ایک بچے کا اخبار کا مضمون پڑھ کر ہمیشہ کے لیے اسراف ختم کردیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں