بچپن کی سنہری یا دیں

 
ہم کو ابھی تک وہ زمانہ یاد ہے
بیٹھے بیٹھے ہمارا مسکرانا یاد ہے
موسم بھی بارش کا کتنا سہانا لگتا ہے
بھیگتے وہ اسکول سے آنا یاد ہے
ہوتا جو نزلہ بخار ہم کو اگر
راتوں میں ماں کا جا گنا یاد ہے
سنے کو وہ آواز ہم ترستے ہیں ماں
تیرا وہ راتوں میں لوری سنانا یاد ہے
ہر کھیل ہم نے کھیلا ہے بچپن کاجہاں
آج بھی وہ ایک ایک کھلونا یاد ہے
عیدِ بہار ہماری تھی پہلی تاریخ یوں
دادا کے وظیفہ کا وہ نذرانہ یاد ہے
موجود آج بھی وہ سارے نشاں ہیں
گرتے گرتے ہمارا سیکل چلانا یاد ہے
ہم بھی دلہہ بنے اور رسمِ ختنہ سجی
خالہ و پھوپھی کا وہ گانا بجانا یاد ہے
اس سےبھی بڑھکے اور باتیں ہیں اے ذکی
پوچھےکوئ جو ہم سے ہرہرمستا نہ یاد ہے
 
ذکی قاضی
اپنا تبصرہ لکھیں