برصغیر پاک و ہند میں جانوروں کی قدروقیمت

camel 22
برصغیر پاک و ہند میں جانوروں کی قدروقیمت
برصغیر پاک و ہند کے حکمرانوں کی بدولت یہ دونوں ممالک انسانیت کی معراج پر پہنچ چکے ہیں اور اپنے عوام کو دنیا کی ہر نعمت سے نواز چکے ہیں لہذ ا اب جانوروں کی باری ہے اس لیے اب انہوں نے جانوروں کو مقام اور اہمیت دینی شروع کر دی ہیں مثلآ پڑوسیوں نے گاے کو مقدس تو مذہبآ تسلیم کرتے ہے ہی ۔ مگر جو مقام موجودہ مودی سرکار دے رہی ہے اُس نے تو گاو ماتا کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا وہ یوں کہ گاو ماتا کے یورین سے ایر فیشنر بنا کر ا سے ہر آفس کو مہکانے کا آرڈر دیا ہے تاکہ ہر کام کرنے والوں کو مقْدس گاو ماتا کی مہک میں ایکسٹرا انرجی ملے او ر ہر ایک کی کارکردگی میں اضافہ ہو ۔ ویسے شکر کریں کہ ہند وستان کی عوام کے اُنہیں اپنے سابق ْ صدر کی طرح نہار منہ پینے کا حکم لاگو نہیں کیا ورنہ بے چارے عوام مرتے کیا نہ کرتے جو حکم حاکم وقت دیتا ہے رعایا کو حکم بجا لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ بندر ۔سانپ اور ہاتھی نجانے کتنے جا نور وں کی تو وہ صدیوں سے پوجا کر کہ خود کو عظمت کے انتہاووں کو چھو چکے ہیں یہ مغرب تو بے کار میں خود کو انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔
اپنے ملک میں بھی جانوروں کی عزت افزائی کم نہیں کوئی شریف محنتی بندہ ہو تو تو اُسکی عزت افزائی کے لیے گدھے کی مشال دی جاتی ہے کہ کیا بندہ ہے گدھے کی اُف کیے بغیر کام کیا جاتا ہے ۔اگر کسی کی وفاداری کو سرہنا ہو تو فرمایا جاتا ہے کہ اس نے تو کتوں کو مات دے دی اور اجکل تو ایوانوں کو بھی پڑوسیوں کی ہوا لگ گئی ہے کیونکہ ہماری پارلیمنٹ میں بھی گائو ماتا کا بڑا چرچا سننے میں آیا کہ ایک جماعت جو ایوان سے روٹھی ہوئی باہر بیٹھی تھی وہ بھی گائو ماتا کی دُم پکڑ کر ایوان میں تشریف لے آئی ہے خیر اتنے تک ٹھیک تھا یہ سب بے ضرر قسم کی پوجا پاٹ اور تانے تشنے کی حد تک محدود تھا ۔پر اب ایک انتہائی سنگین صورت حال پیدا ہونے چلی ہے پہلے دنیا ایٹم بم کا رونا رو رہی تھی مگرباب اس سے زیادہ خطرناک ہتھیار دنیا کے ہاتھ آنے والا ہے اور ہماری لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ خبر ہی نہ تھی اگر ہمارے عظیم پڑوسی توجہ نہ دلاتے اور وہ یو کہ پچھلے سال ھمارا کوئی اُنٹ اپنی لیے دھرم پتنی یعنی اُنٹنی کی تلاش میں اس مجنوں کی طرح صہرا میں نکل گیا اور بے خودی میں اسکو سرحدی حدود و قیود کا خیال نہ رہا اور پڑوسی ملک میں چلا گیا جہاں اُسکو جاسوسی کے الزام میں نہ صرف جیل میں قید کر دیا گیا بلکہ اُس کو باقاعدہ شناخت کے لیے مشرف کے لقب سے بھی سرفراز کیا کہ مشرف کی طرح اا سں کا بھی کوئی پر پرزہ سیدھا نہیں اور ساتھ میں یہ بھی شور مچاتے رہے کے اس کی دیکھ بھال اور خوراک پر امریکن سپاہی کے برابر خرچہ آتا ہے ۔ ابھی یہ رونا رو ہی رہے تھے کہ ہمارے ایک مسٹر کبوتر صاحب کسی ٹاپ ماڈل کبوتری کے چکر میں اسمان کی وسعتوں کو بھول بھال کر پڑوسی کے در پر جا بیٹھے پھر کیا تھا کبوتری والوں ظالم سماج کا کردار نبھاتے ہوئے اپنی عزت و ناموس بچاتے ہوے اُس معصوم پر جاسوسی کا گنوینا الزام لگا کر پولیس کے حوالے کر دیا نتیجہ یہ کہ اس کے مختالیف ایکسرے کروئے گئے اور غا لباْ اکو بھی مسٹر اونٹ کی طرح پولیس کی ڈرئینگ روم کی سیر بھی کرائی ہوگی بھلا ہو ان عالمی قوانین کا کہ قیدیوں کہ حقوق ہونے کی وجہ سے قتل ہونے بچ گئے۔
سنا ہے کہ پچھلے دنوں واہگہ پر پریڈ کے موقع پر پاکستانی نوجوانوں نے پرُزور احتجاج کیا اور نعرے بازی کی کہ ۔۔۔۔شرم کرو حیاء کر و ھمارا کبوتر آزاد کرو ۔۔۔بھئی ہم کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ اس طرح تو ہوتا اس طرح کے کاموں میں!
خیر اصل مقصد کی طرف چلتے ہیں اب ہماری عوام سوچ رہی ہے کہ ہم کو فوجوں اور اسلحوں پر اتنی خطیر رقموں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ و ہم کو کبوتروں اور اُنٹوں کی فوج بنانی چاہیے اور گائے کی کمانڈو فورس بنانی چاہیے کیونکہ اس طرح ایک تو ملک کا قیمتی سرمایہ بچے گا جو ہمارے ایوانوں میں بیٹھے بھکاریوں کے کام آئے گا ْ۔ اورہمارے سپااہیوں کو عوام کی خدمت کا موقعہ ملے گا اور کمانڈروں کو پراپرٹی کا بزنس کرنے کا اور جرنیلوں کو سیاست کا اس طرح ہمارا ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا اور ہم عوام چین کی بنسری بجائینگے ْ اس طرح ہم برصغیر کے لوگ بھی مغرب کے ہم پلہ ہو جائینگے!

زیب محسود

اپنا تبصرہ لکھیں