ایک دن، سنبھل میں ۔۔۔۔۔۔

imran akif
چاند بھی حاصل جہاں سے، روز کر تا ہے ضیا !
ہم نشیں، میں نے اک ایسا شہر نگاراں دیکھا ہے!
وہ 8مارچ 2016کی بات ہے ،جب میں جواہر لعل نہر و یونیورسٹی کے پروانچل زون میں شام کے وقت چہل قدمی کررہا تھا کہ اسی دوران میں میرے ’ریڈ می‘ موبائل کی اسکرین پر ڈاکٹر رضا ءالرحمان عاکف سنبھلی کا نمبر نمو دار ہوا ۔میں نے ریسیو کیا اور حال چال و چند رسمی باتوں کے بعد موصوف نے فرمایاکہ ’اتر پردیش اردو اکادمی ‘کی جانب سے ہمیں ایک روزہ قومی سیمینار بعنوان’حالی ایک ہمہ گیر شخصیت‘کرانے کی منظوری ملی ہے۔لہٰذا اس میں شرکت کرو ۔میرے لیے یہ حکم نما آسمانوں سے ملنے والی خوشیو ںسے کم نہ تھا ۔میںنے ہامی بھر لی ۔دراصل میں جناب عاکف صاحب کواس وقت سے جانتا ہوں جب میری عمر8یا 9سال تھی ۔میں نے اسی زمانے نے اردو ادب کا مطالعہ کیا اور خوش قسمتی سے ’ادارہ الحسنات ‘کا ’نو عمروں کا ڈائجسٹ ماہنامہ نور‘اور دیگر رسالے ہاتھ لگے۔ان میں دیگر قلم کاروں اور تخلیق کاروں کے ساتھ آں جناب کی نظمیں،اقوال اور بہت ساری باتیں پڑھتا رہتا جن سے ہر بار پہلے سے زیادہ متاثر ہوتا۔کشاں کشا ںموصوف میر ے دل میں گھر کرتے چلے گئے۔ظاہر ہے جب کوئی کسی مصنف کو بار بار پڑھتا ہے اور اس سے ایک حدتک لگاﺅ بھی ہوجاتا ہے تو دوسرا قدم اس سے ملاقات کا ہی ہوتاہے۔مگر اس وقت میرے حالات ایسے نہیں تھے مگر میری لگن سچی تھی اورنیت صاف ،منزل آسان ہو گئی۔ چنانچہ تقریباً 12سال بعد میری ملاقات دہلی میں جناب عاکفسنبھلی سے ہو گئی ۔کتنی خوشی ہوتی ہے ناجب کوئی اپنے غائبانہ عزیز سے ملتا ہے جس سے ملاقات کے لیے بے تاب و بے قرار بھی ہو ۔یہ ملاقات حالاں کہ مختصر تھی مگراسی وقت میں بہت ساری باتیں ہوئیں ۔پہلی ملاقات کے بعد دوسری ،تیسری اور باربار کی ملاقات کے دروازے کھلتے جاتے ہیں ۔ایسا ہی یہاں بھی ہوا۔
دوسری ملاقات جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے دوروزہ عالمی پروگرام کے دوران میں ہوئی اور تیسری ملاقات کے لیے تو میں سنبھل ،نہیں اپنے سپنوں کے شہر ہی پہنچ گیا۔ایک روزہ پروگرام میں شرکت کرنا اورمقالہ خوانی تو ایک بہانہ تھا ،اصل مقصد، اس ملاقاتوں کے سلسلے کو بڑھانا تھا۔خدا کرے کچھ نہ سمجھے کوئی
میں بعد نماز جمعہ 18مارچ 2016کو سنہری مسجد لال قلعے کے دامن میں واقع ’ایم سی ڈی پارکنگ‘سے سنبھل کے لیے جانے والی پرائیویٹ بس نمبر ’ UP 23 B 2455دبنگ۔ 2‘ میں سوار ہوا جو 30:3 پر روانہ ہوئی ۔گاندھی نگر اَوَربرج سے ہوتی ہوئی براہ آنند وہار،غازی آباد ،ہاپوڑ،بس 8:15پر سنبھل پہنچ گئی۔میں کھیڑہ مقام پر اتر گیا جہاں ڈاکٹر رضاءالرحمان عاکفسنبھلی،اپنے صاحبزادے واثق رحمان کے ساتھ مجھے ریسیوکر نے کے لیے موجود تھے۔ان کے اسکوٹر پرہم تینوں ’دیپا سرائے‘سے ہوتے ہوئے اندرون شہر واقع ’میاں سرائے پہنچے‘شام کا کھانا ’چمن سرائے‘میں واقع ’مہک ریستوراں ‘میں کھایا جو چکن چنگیزی،رومالی و تندوری روٹی و لوازمات پر مشتمل تھا۔کھانے کے بعد جناب ڈاکٹر کے احباب کی مجلس، ان کے آفس میں جمی جس سے سبھی حاضرین خوب محظوظ ہوئے ۔اس کے بعد رات گہری گہری ہو گئی ۔جس کا مطلب کھلی آنکھیں بھی بند کرلینا ہوتا ہے۔تھوڑی دیر بعد رات کی گہرائی مانند گہری گہری نیندیں پورے وجود پر حاوی تھیں ۔لمحے گزرے ،گھڑیاں بیتیں اور پوپھٹ گئی ۔سب کچھ روشن روشن ہو گیا۔اس روشنی سے آنکھ ملانا بھی ایک ہنر ہے اور انسان کی فطرت بھی ۔اب مزید سو رہنے کا جواز بھی نہ تھا ۔نہانے دھونے،دیگر ضروریات کے بعد سیمینار کی تیاریاں ،دور و نزدیک سے آنے والے مہمانوں کا استقبال ۔محفل کی سجاوٹ اور ہفتوں سے چلے رہے انتظامات کو فائنل ٹچ دینا۔اب یہی کام تھے جوبہ حسن و خوبی انجام پائے ۔بہ حسن و خوبی، اس لیے کہ ان کے پیچھے جو رہ نمائیاں تھیں وہ ڈاکٹر رضاءالرحمان عاکف اور زرقا رحمان کی تھیں جنھوں نے ہر آنے والے کواپنے حسن کارکردگی کا احساس دلایا اور ان سے دادو تحسین حاصل کی۔اگر میں عربی میں یہ مضمون لکھتا تو کہتا ’مَااَح ±سَنَ ‘جس کی ترجمانی، الفاظ سے زیادہ اثر انگیز ہے۔
وقت مقررپر سیمینار کا آغاز’علامہ اقبال ماڈرن پبلک اسکول ،میاں سرائے ،سنبھل ‘کے آڈیٹوریم میںڈاکٹر ایم جی ایم کالج ،روہیل کھنڈ یونیورسٹی کے صدر شعبہ ¿ اردوڈاکٹر عابد حسین حیدری کی صدارت اورشہزاد احمد و عباس رضاکی مشترکہ نظامت میںہوا ۔جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سے بڑھ کر ایک ریسرچ اسکالر اور رام پور و مرادآبادواطراف و جوانب کے اساتذہ نے مولانا الطاف حسین حالی کی حیات و خدمات اور متعدد جہات پر معلومات افزا اور یاد گار مقالے پڑھے۔اہلیان سنبھل و اطراف کی موجودگی اوران کی بغور سماعت نے سیمینار کی رونق میں مزیداضافہ کر دیا ۔غور سے سننے کی باتیں تھیں اور چشم کشا حقائق بھی نیز وہ مولانا حالی کے متعلق وہ خیالات جن سے اب تک کم سے کم میں ناواقف تھا۔میں مقالوں کی سماعت میں اس قدر محو تھا کہ مجھے ہم نشیں ’بنات مہتاب‘ کی میرے چہرے پر پڑنے والی رونقوں و تابانیوں کا بھی ہوش نہیں تھا۔ایک بار جب نگاہ غلط پڑی تو جیسے آنکھوں میں نور بھر گیا ہو ،حالاں کہ میں نے گوگل لگا رکھے تھے، مگر حسن حقیقی کہاں بندوشوں سے رکتا ہے۔
سیمینار تین /سوا تین بجے اختتام پذیر ہوا۔اس کے بعد دعوت طعام ۔جس میں تمام حاضرین نے شرکت کی۔بعد ازاں میلہ ہی بچھڑ گیا ۔وہ رونقیں ،وہ تابانیاں ،وہ ضیا ئیں ،ایک ایک کر کے چھٹنے لگیں ۔رہ گئیں بس اداسیاں اور حسرتیں ’کاش یہ محفل کچھ اور چلتی نہ جانے کب تک کب تک اور کب تک
میں اب دہلی آگیا ہوں مگر سچ پوچھیے تو میرا جسم یہاں ہے اور د ل وہ پاگل تو ابھی تک سنبھل کی گلیوں میں بھٹک رہا ہے، نہ جانے اب کہاں ہو گا او ر کب میرے پاس آئے گا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ خود مجھے ہی اس کی تلاش میں جانا پڑےاسے کچھ ہونہ جائےاللہ خیر کرے!
اپنا تبصرہ لکھیں