انٹر کلچرل وومن گروپ اوسلو میں ایڈووکیٹ اور اسلامی اسکالر طاہرہ فردوس کی بچوں کی تربیت اور گھر بسانے کے موضوع پرتقریر

رپورٹ نمائندہء خصوصی
بدھ کی شام کو اوسلو بورگ گاتا ون میں اسلامی اسکالر اور ایڈووکیٹ طاہرہ فردوس نے انٹر کلچرل وومن گروپ سے بچوں کی تربیت اور گھر بسانے کے مسائل کے موضوع پر اسلام کی روشنی میں تقریر کی۔۔تقریب میں تنظیم کی سربراہ محترمہ غزالہ نسیم او ر محترمہ امتیاز یٰسین بھی موجود تھیں۔اس موقع پر بہت سی خواتین نے پروگرام میں شرکت کی۔
طاہرہ فردوس تین سال سے ناروے کے ادارہ منہاج القرآان میں بطور اسلامی اسکالر کے منسلک ہیں۔جبکہ پاکستان میں ہائی کورٹ کی ایڈووکیٹ بھی رہ چکی ہیں۔اس وقت ناروے میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔پاکستان میں سات سال تک اسلامی یونیورسٹی میں خواتین کی اسلامی تربیت کے مضمون کے ساتھ منسلک رہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں تین باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اول گھر کا ماحول خوشگوار ہو نا چاہیے۔دوسرے میاں بیوی کے تعلقات اچھے ہوں اور تیسرے حکمت عملی سے کام لیں۔
گھر میں بچوں کو ہر وقت کی روک ٹوک اور طعنہ زنی نہیں کرنی چاہیے میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کی عزت کریں گے تو بچے بھی ان کی عزت کریں گے اور بات مانیں گے۔بچوں کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔اس سے بچوں کی شخصیت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
حکمت مومن کی میراث ہے بچوں سے ان کے مزاج کے مطابق بات کریں اگر کوئی بچہ آرام سے بات سمجھ لے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں۔بچے کچی مٹی کی طرح ہوتے ہیں جس طرح چاہیں ڈھال لیں۔مگر بچے کو اپنا باس نہ بنائیں کہ اس کی ہر بات مان لیں۔تربیت میں غصہ سے کام نہ لیں۔اسٹوری کے طریقے سے بات سمجھائیں ۔کھانا مل کر کھائیں۔اور بچوں کی عادات کو پہلے نوٹ کریں پھر مناسب وقت پر مناسب طریقے سے حوصلہ افزائی کریں یا ٹھیک کریں۔
بچوں کی سوسائٹی کو جاننے کے لیے ان کے دوستوں کی گھر میں پارٹی کریں۔ایک شادی ہال میں شادی کے موقع پر والدین نے بچوں کے حقوق پر تقریر کی جسے سب نے سراہا اور معلوما ت بھی ملی ۔اس طرح کا اہتمام ہونا چاہیے نہ کہ فضول رسم و رواج ۔اس کے علاوہ شادی کورس بھی ہونا چاہیے۔
ایک خاتون نے کہا کہ ہمیں بیٹے کے لیے حسین و جمیل دراز قد پڑہی لکھی نیک شریف لڑکی چاہیے کیا ایسی لڑکی مل جائے گی۔میں نے کہا ہاں مل جائے گی خاتون نے پوچھا کہاں میں نے کہا جنت میں۔ہمیں دوسروں کو خامیوں کے ساتھ قبول کرنا چاہیے ہر شخص پر فیکٹ نہیں ہوتا۔
نے کہا کہ انسانی معاشرے میں خاندان ایک اکائی کی طرح کام کرتا ہے جہاں مردو عورت کو مختلف دائرہء عمل میں فرائض دیے گئے ہیں انہوں نے کہ اکہ ہمارے معاشرے میں مذہب سے ذیادہ رسم و رواج کو اہمیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔تمام رسم رواج ہندو کلچر سے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شادی کرتے وقت لڑکے لڑکی کی پسند کو مد نظر نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے شادی کے بعد مسائل جنم لیتے ہیں۔لوگ شادی کرتے وقت ذات پات کو مد نظر رکھتے ہیں حالانکہ اہم بات مذہبی فرقے ہیں ایسے فرقے جو اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہیں ان میں شادی کے بعد مسائل پیدا ہوتے ہیں۔۔اسی طرح ذات پات اللہ تعالیٰ نے پہچان کے لیے بنائے ہیں نہ کہ امتیاز کے لیے۔پھر ہر علاقے میں مختلف ذاتوں کی ویلیوز مختلف ہوتی ہیں۔کسی ملک اور علاقے میں بٹ اور جٹ ذیادہ اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں تو کہیں راجہ اور راجپوت کو اعلیٰ ذات سمجھا جاتا ہے اس لیے ذات پات کی بنیاد پر رشتے طے کرنا صحیح نہیں۔تقریر کے بعد انہوں نے پروگرام میں موجود خواتین کے سوالوں کے جوابات دلچسپ اور مدلل انداز میں دیے
آخر میں مہمانوں کی تواضع پیزا سے کی گئی
UFN

اپنا تبصرہ لکھیں