اردو گلبن کی جانب سے مہمان شعرا کی پذیرائی کیلئے محفل شعرکا انعقاد عمل میں آیا

اردو گلبن کی جانب سے مہمان شعرا کی پذیرائی کیلئے محفل شعرکا انعقاد عمل میں آیا
۲۲ جنوری ۲۰۱۶ ء کی شب گلف اردو کونسل کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کیلئے جدہ تشریف لانے والے منفرد لہجے کے شاعر فراست علی خسرو ، ر یاض سے ، اوربزرگ مزاحیہ شاعر چکر نظام آبادی ہندوستان سے تشریف لائے تو حسب روایت اردو گلبن نے اپنی میزبانی کا فریضہ پورا کیا۔محترم حسن بایزید کی قیام گاہ پرمنعقدہونے والی اس شعری نشست کی صدارت محترم مجاہد سید نے فرمائی اور نظامت مہتاب قدر نے کی۔
ناظم مشاعرہ نے اپنے کلام سے آغاز کرتے ہوئے اشعار پیش کئے؛
جب چٹکتی ہے کلی پھول مہک اُٹھتا ہے
اپنے لُٹ جانے کا ماتم ہے گلوں کی خوشبو
ہم نے سینے میں اُسے بسنے دیا ہے کب ہے
تیری یادوں سے بہت کم ہے گلوں کی خوشبو
فرحت اللہ خان فرحت ہندوستانی اسکول کے ریاضی کے استاذ ہیں ، موصوف نے تحت اللفظ اور ترنم میں شعر سنا کر مشاعرے کو ابتدا ہی سے اپنے ماحول میں پہنچادیا۔
الجھے رشتوں کی دراڑوں کو چلو بھرلیں یوں
خود کو ہم آج بُرا ، اُن کو ہی اچھا سمجھیں
آشنا آپ نہ ہوں درد سے میرے ہرگز
رقص بسلم کو مرے آپ تماشا سمجھیں
مکہ مکرمہ سے تشریف لائے شاعر کامران خان یوں گویا ہوئے،
اُٹھا ہے درد جو سینے میں اس کو تیز ہونے دو
ہمارے صبر کے پیمانے کو لبریز ہونے دو
کہیں یہ سلسلہ سانسوں کا یونہی ؂ٹوٹ نہ جائے
پلاکر جام آنکھوں سے یہ شب گلریز ہونے دو
اردو گلبن کے معتمد عمومی الطاف شہریار نے شعر سنا کر داد و تحسین حاصل کی،
وفا کرنے کا وعدہ کر لیا ہے
کہ ہم نے دل کشادہ کر لیا ہے
فلک سے چاند تارے لاوں گا میں
یہ دعوی کچھ زیادہ کرلیا ہے
نئی تراکیب اور خوبصورت لہجے کے جواں سال شاعر فیصل طفیل نے سماعتوں کو بہت محظوظ کیا اور داد و تحسین کے پھول سمیٹ لئے
خط مستقیم میں دائرہ نہیں آئے گا
تو کیا لوٹ جانے کا مرحلہ نہیں آئے گا
تیرے بعد میں نے مٹادیا ہے نشان راہ
نہیں آئے گا کوئی دوسرا نہیں آئے گا
جدہ کی قدیم انجمن حلقہ ارباب ذوق جدہ کے ساتھی اور بزرگ شاعر یونس الماس نے کلام پیش کیا تو پرانے مشاعروں کی یاد تازہ کردی ، ان کا ترنم اور شاعری دونوں پسند کئے گئے،
دل پہ چھایا غبار سا کیوں ہے
بوجھ یہ ناگوار سا کیوں ہے
کس کا غم ہے گلی گلی یارو
یہ نگر اشکبار سا کیوں ہے
اب نہ عز ت نہ خو ف رسوائی
در پہ سب کچھ لٹا گئے ہم لوگ
کوچہ عشق کے در و دیوار
خون ِ دل سے سجا گئے ہم لوگ
معروف شاعر عرفان بارہ بنکی نے خوبصورت کلام پیش کیا اور سامعین سے داد بھی لی،
ایک قطعہ ملاحظہ ہو؛
سر پہ ہو تیغ و سناں پھر بھی قلم بولتا ہے
ہو مخالف یہ جہاں پھر بھی قلم بولتا ہے
یہ کسی حال میں خاموش نہیں رہ سکتا
کاٹ دی جائے زباں پھر بھی قلم بولتا ہے
ریاض سے آئے مہمان شاعر میر فراست علی خسرو نے اپنے خوبصورت انداز میں معیاری فکرو ہنر سے مالامال کلام پیش کیا؛
آج ہاتھوں میں ہے ٹوٹے ہوے لفظوں کی کماں
میرے ترکش میں کئی تیر ہوا کرتے تھے
انکی تصویر میں ورنہ یہ کشش کیوں ہوتی
وہ یقیناً پس تصویر ہوا کرتے تھے
آج کیا کوئی شکایت بھی نہیں ہے مجھ سے
لفظ تو آپ کی جاگیر ہوا کرتے تھے
مزاحیہ شاعر چکر نظام آبادی نے سامعین کو قہقہوں کے چکر میں ڈال دایا؛
مچھر تمام شہر کے دم گُھٹ کے مر گئے
دل میرا جب جلا تو غضب کا دھواں ہوا
بنت حوا کے یہ نخرے نہیں اچھے لگتے
ایسی مہنگائی میں بچے نہیں اچھے لگتے
آخر میں صدر محفل محترم مجاہد سید نے اپنے کلام بلاغت نظام سے نوازا ؛
اے خزاں کا قصہ سنانے والو بھلا بتاو میں کروں مرے اس اُجاڑ دشت میں یہ جو پھول اب ہے کِھلا ہوا
شعر کی آگ میں جلتے ہیں شب و روز جو ہم زندگی بیج کے مرنے کا ہنر لیتے ہیں
آخر میں دعائیہ کلمات اور شکریہ میں یہ محفل رات دئے گئے اختتام کو پہنچی ۔

اپنا تبصرہ لکھیں