آزادی يا رسم آزادی

Shoaib Bhatti <bhattidba@gmail.com

انسانی دل و دماغ ميں جب لفظ متحد ہو کر الفاظ کی شکل اختيار کرليتے ہيں۔ تو انہیں دل و دماغ کی تاريک قيد سےآزادی مل جاتی ہے ليکن اس قيد کے بعد يہ الفاظ بذريعہ قلم کتاب ميں قيد ہو جاتے ہيں۔
حکايت: ايک با دشاہ نے ايک خوبصورت نوجوان غلام کوآزاد کرايا اور شہزادی سے اس کی شادی کر دی، پھرشہزادی اکثر اس نوجوان کوبا دشاہ کے عنايات کے طعنےديتی رہتی۔ ايک دن نوجوان نے غصّے میں کہا کہ ميں آزاد کہاں ہوں اس غلامی سے نکل کرتيری غلامی ميں قيد ہوں۔   
ہمارا مسئلا يہی ہےکہ ہم نےاسلام کے نام پرجغرافيائ آزای تو حاصل کرلی ليکن ہم نظرياتی غلامی ميں ہيں۔ اور اسلام کی حقيقت سے نا آشنآ ہيں اورشہزادی کے طعنے اسلام دشمنوں کی شکل ميں سنتے رہتے ہيں۔
 پاکستان حقيقی اسلامی،فلاحی مملکت جب بن سکتا ہےکہ ہم پاکستان کے بنيادی نظريہ اسلام کوکتاب سے آزاد کرکہ اپنی عملی ذندگی ميں جاري کريں

اپنا تبصرہ لکھیں