آخری واردات

Panjabi bed.....
شازیہ عندلیب
چور کو پکڑنا اور جرم اگلوانا تو گویا گوری چٹی دھان سی اماں جان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کرائم سائیکالوجی پڑہنے والے بھی ان کی اس مہارت کے آگے پانی بھرتے تھے۔پولیس میں سپریڈنٹ ماموں بھی انکی اس قابلیت کے معترف تھے۔جب بھی کسی مجرم سے جرم اگلوانے میں دشواری ہوتی ۔اماں جان جنہیں وہ آپا جی کہا کرتے تھے سے مشورہ کرتے تو گتھی فوراً سلجھ جاتی۔وہ کسی یونیورسٹی تو کیا کالج میں بھی نہیں پڑہی تھیں ۔ان کے بیان کے مطابق جب ان کی شادی ہوئی وہ جماعت چہارم کی طالبہ تھیں۔جبکہ اماں جی کی والدہ کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹی کو پوری پانچ جماعتیں پڑہا کر رخصت کیا تھا۔اس لیے اماں جی کی تعلیمی ڈگری کے بارے میں کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں۔دیگر احباب اور ان کی ہم عصر برادری بھی اس بارے میں مختلف بیانات دیتی ہے۔اس لیے اماں جان کی تعلیمی سند کے تمام ثبوت ان کی والدہ ماجدہ کی طرح ضعیف ہیں۔مگر اہم بات یہ ہے کہ اس ضعیف ڈگری کے باوجود اماں جان کی تفتیشی قابلیت کی استعداد میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ کسی مستند تعلیمی ادارے سے پولیس کی تفتیشی تعلیم و ٹریننگ نہ لینے کے باوجود کسی بھی اعلیٰ افسر سے کم قابلیت نہ رکھتی تھیں۔اب تک کئی چوروں کو نہ صرف پکڑ چکی تھیں بلکہ ان سے جرم اگلوانے کے ساتھ ساتھ مال بھی بر آمد کروا چکی تھیں۔وہ بھی یوں کہ چور چوری کا مال یا تو عین موقع پرچھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے یا پھر بہ نفس نفیس گھر پہنچا جاتے۔ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے نا اہل پولیس آفیسر سبق حاصل کر سکتے ہیں جو مجرموں کو مار پیٹ سے بھی حقیقت نہیں اگلوا سکتے وہ نہیں جانتے کہ مجرم کی نفسیات اور پیار کے میٹھے بول بڑے سے بڑے مجرم کو بھی سچ اگلنے پر مجبور کر دیا کرتے ہیں۔مگر اماں جی کو یہ سب پتہ تھا۔یہ صفت نہ صرف اماں جی میں تھی بلکہ ان کے گھریلو ملازم بھی چوروں کو پکڑنے کی صفت میں تاک تھے۔اماں جان نے یورپ منتقل ہونے سے پہلے جتنا عرصہ اپنے وطن میں قیام کیا ایک بھی چور انکے ہاں کسی واردات میں کامیاب نہ ہوسکا۔
mama saloo...
ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ اس قدر سادہ زندگی گزارنے الی اماں جی کے ہاں چوروں کو کیا کشش نظر آتی تھی کہ وہ ان کے ہاں اکثر ہی واردات کیا کرتے اور پھر مال بھی واپس کر جاتے۔اور چوریاں بھی بہت دلچسپ۔تفصیل کا تو وقت نہیں نہ آپ کے پاس کوئی تو بہ ۃنصوح پڑہنے کی فرصت ہو گی۔بس چند حاشیہ اور سرخیاں پیش خدمت ہیں۔ اماں جان کے ہاں چوری کی پہلی اہم واردات ان کے جدی پشتی ملازم ماموں مصلح الدین عرف ماما صالحو کی چارپائی کی تھی۔ ماما صالحو فجر کی نماز پڑھ کر واپس آ رہے تھے کہ ایک شخص کو سر پہ چارپائی رکھے سرپٹ بھاگتا پایا۔۔۔۔۔ وہ بیچارہ شائید اناڑی تھا۔۔۔یا پھر ماما صالحو کی خوبصورت بان سے بنی چارپائی دیکھ کر للچا گیا۔وہ اس چارپائی پہ انگڑائیاں لینے کے ارمان دل میں سجائے کھولی سے چارپائی اٹھائے بھاگا چلا جا رہا تھا کہ ماما صالحو نے اسے رنگے ہاتھو پکڑ لیا ۔ ماما صالحو نے سر کی پگڑی اور اپنی دھوتی کو سنبھالتے ہوئے چور کی جانب دوڑ لگائی اور نا ہنجار کو للکار کر چارپائی واپس کرنے کا حکم دیاچور نے سڑک کے بیچوں بیچ چارپائی چھوڑی اوراپنی عزت اور جان بچا کر موقع واردات سے راہ فرار اختیار کی۔رات کے کھانے پر ماما صالحو نے نے تمام اہل خانہ کو بڑے فخر سے یہ کارنامہ سنایا جسے سب نے خوب سراہا۔ماما صالحو ایک نہائیت ایماندار ملازم تھے ۔آپکا تعلق پنجاب کے ایک گاؤں مرزا پور سے تھا۔جسے آپ اپنی ٹھیٹ پنجابی میں مرجا پور کہا کرتے تھے۔ آپ کے دور ملازمت میں اس قسم کی بہادری کے بیشمار قصے ہیں مگر قارئین کے وقت کی کمی کے پیش نظر ان قصوں کو داستان امیر حمزہ اور قصہ چہار درویش بنانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد اگلی واردات اماں جان کی مل کے گودام سے علی الصبح بنولے کے تیل کے خالی ڈرم کی چوری تھی۔اماں جی اپنے مکان کی دوسری منزل پر چہل قدمی کے دوران نماز فجر کی معمول کی تسبیح رول رہی تھیں کہ انہیں اپنے قریبی گودام کے گیٹ کے باہر کھڑ بڑ کھڑ بڑ کی آوازیں سنائی دیں۔کھڑکی کے باہر جھانکا تو ایک پیلے کپڑوں میں ملبوس شخص لوہے کا خالی ڈرم لڑھکا کر جائے واردات سے ڈرم سمیت فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔شائید بیوقوف چور نے علی بابا چالیس چور کی کہانی نہیں پڑہی ہو گی ورنہ علی بابا کے چوروں کی طرح خالی ڈرم کے اندر گھس کر آرام سے لڑھکھنیاں کھاتا اور پکڑا بھی نہ جاتا ۔جھولے مفت میں ملتے اورجو دیکھتا ڈرم کے اندر بھوت سمجھ کر بھاگ جاتا۔وہ علاقہ ویسے بھی چڑیلوں کی کیمن گاہوں اور رہائشوں کے لیے شہرت رکھتا تھا۔اماں جی نے جب ایک چور کو اپنے گودام کا خالی ڈرم لے جاتے دیکھا تو کھڑکی سے ایک رعب دار آواز لگائی ۔او بھائی ڈرم واپس رکھ جا،انکے اس جملے میں نہ جاے کیسا رعب و دبدبہ اور مقناطیسی کشش تھی کہ چور جس تیزی سے ڈرم لڑھکا رہا تھا۔اس سے ذیادہ سرعت کے ساتھ ڈرم سر پہ رکھ کے واپس رکھا اور سر پہ پاؤں رکھ کے بھاگا۔
پھر اماں جان کے خالی پرس کی سر بازار چوری کا قصہ جو بقول ان کے ایک موٹی عورت نے انہیں دھکا دے کر خالی ٹوکری سے اٹھایا تھا۔اس کے بعد روشن ملازم کا بنکاک سے آئی ہوئی گھڑی چرانے کا قصہ۔یہ گھڑی روشن ملازم جس کی شکل نام کے بالکل برعکس تھی نے چوری کرنے کے بعد خود گھر دے گیا۔اس کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے کی سائیکل کے چور کا قصہ وہ بھی چور گھر آ کر دے گیا۔اس کے علاوہ بیشمار چھوٹی بڑی وارداتوں کے قصے ہیں جن میں قیمتی زیورات پرس نقدی اور دیگر گھریلو سامان کی چوریوں کے قصے شامل ہیں۔اگر ان کو بیان کیا گیا تو پھر سے کہانی کی کئی اقساط تیار ہو جائیں گی۔اگر یہ کہانی کسی ٹی وی یا فلم پروڈیوسر کے ہتھے چڑھ گئی تو خدشہ ہے کہ وہ کہانی رائٹر کے پیسے بچا کراوراسے چرا کر سیریل بنا لے گا۔لہٰذا ان تمام خطرات کے پیش نظر صرف کہانیوں کی سرخیوں پر ہی اکتفا ء کیا جارہا ہے۔ہاں اگر محکمہ پولیس کو اماں جان کی خدمت درکار ہوں۔۔ تو وہ رعائتی فیس اور فلاحی جذبہ کے ساتھ دستیاب ہیں۔
ایک سبق آموز چوری ان کی بیٹی کے پڑوسی نے کی ۔یہ بھی ان کے دس سالہ نواسے کی سائیکل کی چوری تھی۔چور ایک شرارتی بچہ تھا۔جو محلے میں چوریوں کے لیے بدنام تھا۔اماں جان کی بیٹی نے اسی شرارتی بچے سے اپنے بیٹے کی سائیکل ڈھونڈنے کی درخواست کی۔اس بچے کو کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا تھا۔بارہ سالہ روسی نثراد اورڈی لڑائی جھگڑے اور چوری چکاری میں ماہر تھا۔یہ خصلت اسے اپنے والدین سے ورثہ میں ملی تھی۔اس کا تعلق روس کے جس قصبے سے تھا وہاں کی اکثریت کا ثانوی پیشہ اور مشغلہ اٹھائی گیری ہی تھا۔جب ناروے کا بارڈر شامی پناہ گزینوں کے لیے کھولا گیا تو اورڈی کے والدین بھی ایجنٹ کو پیسے دے کر ناروے کا بارڈر کرکے یہاں آ گئے۔روس کے جرائم پیشہ افراد میں ناروے مجرموں کی پناہ کے لیے جنت نظیر سمجھا جاتا تھا۔مگر جب نارویجن حکام کو اپنی اس شہرت کا علم ہوا انہوں نے اس ملک کو مجرموں کے لیے جہنم بنا دیا۔اور سب کو نکال باہر کیا۔مگر اورڈی کا باپ ابھی تک حکام کی نظروں میں نہیں آیا تھا۔اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ اس نے وقتی طور پر اس پیشہ کو چھوڑ دیا تھا۔کیونکہ اسے بیروزگاری لاؤنس اتنا مل جاتا تھا کہ اب چوری کرنے کی ضرورت نہ تھی۔دوسرے اس کے بچے بھی اب یہ نہیں چاہتے تھے۔اس کا بڑا سبب اورڈی کی وہ چواردات بھی تھی جو اس نے اپنے پڑوسن کے بچے کی سائیکل چراکر کی تھی۔اماں جان کی بیٹی نے اورڈی کو بلا کر بڑے پیار سے بات کی۔اورڈی سفیان کی ماں کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔وہ کہہ رہی تھی کہ کہ تم بہت اچھے بچے ہو ۔بہت ہی پیارے لائق اور دوسروں کی مدد کرنے والے۔اس نے آج تک اپنی تعریف نہیں سنی تھی۔اس سے تو کوئی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔۔مگر ۔۔وہ کہہ رہی تھی کہ کیا تم میری مدد کرو گے۔۔۔۔۔
اورڈی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔۔اس نے سمجھا تھا کہ وہ اسے ڈانٹے گی۔برا بھلا کہے گی۔پھر وہ اپنی ماں کو بلا لائے گا اور خوب لڑائی ہو گی ۔پھر خوب مزہ آئے گا۔۔۔۔مگر اس کی پڑوسن تو اس سے درخواست کر رہی تھی۔۔۔۔ کہ تم میرے بیٹے کی سائیکل ڈھونڈنے میں مدد کر سکتے ہو۔اسے اس کی مسکراہٹ اتنی اچھی لگی کہ اسکا جی چاہ رہا تھا کہ وہ نہ صرف اس کے بیٹے کی سائیکل واپس کر دے بلکہ باقی بچوں کی سائیکلیں بھی چرا کر اسے تحفہ میں دے دے۔اس لیے کہ آج تک کبھی ا س نے کسی سے اپنی تعریف نہیں سنی تھی۔۔۔۔اپنی تعریف سن کر اورڈی کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔۔۔ وہ جلدی سے بولا ہاں ہاں میں نے اس کی سائیکل ایک جگہ دیکھی ہے۔۔۔میں جا کر ڈھونڈتا ہوں ۔۔۔حالانکہ یہ نئی سائیکل اسکے گھر کے گیراج میں کھڑی تھی جو کہ اس نے دو روز پہلے چرائی تھی۔اس کے لیے یہ احساس ہی بہت روح افزا تھا کہ وہ کسی کی مدد کر سکتا ہے۔۔۔
اورڈی نے فوراً اسکی مدد کی حامی بھر لی اور ایک گھنٹے کے اندر سائیکل اسے لا دی۔گو کہ اسے پہچاننا مشکل تھا کہ اس نے اسکی تمام نشانیاں ختم کر دی تھیں۔مگر یہ اس کی آخری چوری ثابت ہوئی۔اس کے بعد اس نے نہ صرف پڑہائی میں دل لگایا بلکہ اپنے باپ کو بھی سختی سے چوری کے پیشے کو خیر باد کہنے کا مشورہ دیا۔اس نے ایک فرم میں جز وقتی ملازم ت کر لی۔اس کے بعدسائکلوں کی مرمت کی ورکشاپ کھول لی۔اب سب اسکی تعریف کرتے ہیں۔اس کے دو خوبصورت بچے ہیں اور وہ ایک خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے ۔ایک عورت کی خوش اخلاقی نے اسکی زندگی بدل دی۔
اپنا تبصرہ لکھیں